دنیا میں کچھ رشتے ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہوتے ہیں الگ رہ کر ان کی تکمیل نہیں ہوپاتی… ایسے رشتوں میں ایک رشتہ ہے بیوی اور شوہر کا جو کہ دیگر تمام رشتوں سے بڑھ کر سب سے اہم اور لازمی ہے تو دوسری جانب اس سے زیادہ کمزور اور ناپائیدار اور بے یقینی کا حامل کوئی رشتہ بھی نہیں‘ ازدواجی زندگی گڈے اور گڑیا کا کھیل نہیں ہوتی کہ کھیل ختم ہوا اور اٹھ کر چل دئیے بلکہ شادی شدہ زندگی کو پیار‘ محبت‘ سمجھوتے اور سمجھ بوجھ کے ساتھ آگے لے کر چلنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر یہ رشتہ کامیاب اور زندگی خوشحال ہوتی ہے۔ اس رشتے کو نبھانے کی خاطر لڑکے اور لڑکی دونوں کو قربانیاں دینا پڑتی ہیں تاہم دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اس حوالے سے زیادہ بوجھ لڑکی پر ہی پڑتا ہے ۔
لڑکی کیلئے امتحان:لڑکی جب پرائے گھر جاتی ہے تو ضروری نہیں ہے کہ اسے ہر چیز پرفیکٹ اور اپنی پسند کے مطابق ملے مگر یہی اس کا اصل امتحان ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے ناپسندیدہ رویوں‘ عادتوں اور باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے اندر حوصلہ اور صبر و برداشت پیدا کرے۔ اسے خود کو ماحول سے کسی نہ کسی طرح ہم آہنگ کرنا ہی ہوتا ہے اور جب وہ تمام باتوں کو سہنا اور مخالف رویوں میں جینا سیکھ لیتی ہے تو تب کہیں جاکر اپنا گھر آباد کرپاتی ہے۔ شادی کے بعد پرائے گھر میں آنے والی لڑکی یکایک سب کچھ اپنی پسند کے مطابق نہیں ڈھال سکتی بلکہ وہ رفتہ رفتہ ہی اجنبی افراد میں اپنی جگہ بناسکتی ہے اور جب اپنے حسن اخلاق اور رویوں سے وہ پسندیدگی کی سند پا جاتی ہے تو پھر اس کیلئے دوسروں کے رویوں کو اپنی پسند کے مطابق ڈھالنا کوئی مسئلہ نہیں رہتا تاہم اس کے لیے بڑا وقت اور صبر درکار ہوتا ہے جب لڑکی شادی کے بعد زندگی کے ایک نئے دور میں قدم رکھ رہی ہوتی ہے تو اس کے پیش نظر صرف شوہر کا مزاج یا عادات و اطوار ہی نہیں ہوتے بلکہ ساری سسرال کا ماحول اس کی آمد کا منتظر ہوتا ہے جسے ایک بہو ہونے کے ناطے اسے قبول کرنا پڑتا ہے۔
یہ بات سوفیصد درست ہے کہ شادی سے پہلے اور بعد کی زندگی میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے۔ شادی سے پہلے اس کی پسند کو اولین ترجیح سمجھا جاتا ہے اور والدین کے علاوہ بہن بھائیوں کی محبت اس پر نچھاور ہورہی ہوتی ہے مگر شادی کے بعد اسے اپنی پسند اور مرضی کو پس پشت ڈالنا پڑتا ہے اور خود پر دوسروں کو اولین ترجیح کے طور پر دیکھنا بھی… جہاں لڑکی یہ مرحلہ کامیابی سے طے کرلیتی ہے وہاں زندگی مثل بہشت ہے اور جہاں زندگی کی حقیقتوں کو دل سے تسلیم نہیں کرتی تو اس کی اپنی زندگی بے ترتیبی اور پھر آہستہ آہستہ یہ کھنچا تانی اس حد تک چلی جاتی ہے کہ معاملہ علیحدگی اور پھر طلاق تک جا پہنچتا ہے۔ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ ایسی نوبت آنے ہی نہ دی جائے اور اسے روکنے کی کوشش کی جائے لیکن اس کیلئے لڑکی کو حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے جو کہ عام طور پر لڑکیاں نہیں کرپاتیں۔ گھر کو بنانے کیلئے شوہر اور گھر والوں کو اس کا ساتھ دینا پڑتا ہے خاص طور پر شوہر کو اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ لڑکی کی اپنے شوہر سے اچھی ہم آہنگی ہو کیونکہ سسرالی جب کسی لڑکی کو بیاہ کر لاتے ہیں تو اس وقت تو بے پناہ خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے مگر نہ تو لڑکی کو دل سے قبول کیا جاتا ہے اور نہ ہی اپنا سمجھا جاتا ہے۔ اپنے ظاہری روئیے سے ثابت تو یہ کیا جاتا ہے کہ لڑکی ہماری ہوگئی ہے مگر وہ ہمیشہ باہر کی اور غیر ہی رہتی ہے جس کی حرکات و سکنات پر گہری نگاہ رکھی جاتی ہے اگر وہ کسی کام کو درستگی سے انجام نہ دے سکے یا وہ سسرال والوں کی مرضی کے عین مطابق نہ ہو تو اسے شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے یہاں تک کہ اس کی تربیت اور والدین کے کردار کو بھی لتاڑا جاتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس صورتحال میں دل نفرتوں اور کدورتوں کی آماجگاہ بن جاتے ہیں اور ماحول کشیدہ تر ہوجاتا ہے اگر لڑکی معاملہ فہم اور ٹھنڈے مزاج کی ہے تو وہ یہ سب کچھ برداشت کرلیتی ہے اور دب کر رہنا بھی قبول کرلیتی ہے لیکن اگر وہ تیز طرار یا تنگ مزاج ہے تو معاملات برعکس ہوجاتے ہیں اور گھر میدان جنگ کا نظارہ پیش کرنے لگتا ہے اور دونوں محاذوں پر رشتوں کی جنگ میں لوگ سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔
اگر آپ اپنی ازدواجی زندگی کو خوشیوں سے لبریز رکھنے کے خواہشمند ہیں تو غلط فہمیاں پیدا کرنے والی چھوٹی چھوٹی باتوں سے گریز کریں اور ان کو اپنے دل اور ذہن میں جگہ نہ بنانے دیں کیونکہ یہی باتیں وقت کے ساتھ منفی صورت اختیار کرلیتی ہیں جس کے بعد زندگی الجھ کر رہ جاتی ہے۔ دراصل شادی کے بعد دونوں فریقین کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور حتی الامکان طور پر ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یاد رہے کہ یہ سب کچھ پلک جھپکتے میں نہیں ہوسکتا لہٰذا ایک دوسرے کو تھوڑا سا وقت دیں کیونکہ جیسے ہی ایک دوسرے کو سمجھنے کا مرحلہ مکمل ہوگا تو اس کے ساتھ ہی غلط فہمیاں بھی دم توڑ دیں گے ۔ اگر شادی طے شدہ ہے تو کشیدگی اور نااتفاقی کا تمام تر الزام ماں باپ کے سرمنڈھ دیا جاتا ہے کہ یہ آپ کی پسند ہے آپ ہی اسے لائے ہیں… ہماری پسند کو اولیت دی جاتی تو یہ نوبت نہ آتی۔ اگر شادی محبت کا نتیجہ ہے تو بیوی اور شوہر سب کچھ اسی طرح دیکھنے کی توقع کرتے ہیں جیسے کہ شادی سے قبل تھا مگر حقیقت صرف یہ ہے کہ شادی کے بعد بہت ساری چیزیں مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتی ہیں۔ شادی سے پہلے لڑکے عام طور پر لڑکی کی تعریفوں میں لگے رہتے ہیں اس کی ایک ایک ادا کو سراہتے ہیں‘ گھنٹوں فون پر بات چیت ہوتی رہتی ہے جوکہ نامناسب بھی ہے اور اس سے اکثر شادی سے پہلے ہی دل میں کدورتیں پیدا ہوجاتی ہیں ۔
عورت دراصل کسی بھی صورت میں اپنی اہمیت سے دستبردار نہیں ہونا چاہتی جبکہ مرد کیلئے یہ سب کچھ کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ وہ شادی کے بعد اپنی حکمرانی کا خواہشمند ہوتا ہے اور دومخالف قوتوں کا حکمرانی پر زور خطرناک شکل اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ ازدواجی زندگی کو کامیاب اور خوشگوار بنانے کیلئے چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظرانداز کرنا ہی عقلمندی ہوتی ہے۔ براہ کرم رشتوں کے تقدس کو پہچانیں‘ ان کو اولین ترجیح سمجھیں کہ ان رشتوں کے ساتھ ہی انسان ساری زندگی گزارتا ہے جب باتوں اور اختلافات کو چھوڑ کررشتوں کو اہمیت دی جائے گی تو تمام تر مشکلات خود ہی دم توڑتی چلی جائیں گی کیونکہ رشتوں کی بہرحال اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے جن کو قائم رکھنے کی خاطر سب کچھ برداشت کرنا ہوتا ہے۔ میاں اور بیوی کا رشتہ ایسا ہوتا ہے جس میں ایک دوسرے سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہوتی لہٰذا کوشش یہ رہے کہ اختلافات کے سامنے آنے پر انہیں حل کرنے کی سعی کی جائے۔ چھوٹی موٹی باتوں پر غیرضروری اختلافات پر گھروں کو برباد کرنا یوں بھی کوئی عقلمندانہ بات نہیں ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں